Saturday, March 9, 2019

عمران خان-بحثیت سیلست دان


کرکٹ کیریئر کے دوران عمران خان کو کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش کی گئی۔ 1987ء میں صدرپاکستان محمد ضیاء الحق نے انہیں مسلم لیگ میں سیاسی عہدے کی پیش کش کی جسے انہوں نے انکار کر دیا۔ نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا تھا۔ ضیاء الحق کے ساتھ عمران خان کے اچھے تعلقات تھے، انہوں نے کرکٹ چھوڑ دی تھی لیکن جنرل ضیاء ان کو دوبارہ کرکٹ میں واپس لے کر آئے  1992ء کا ورلڈ کپ بھی جنرل ضیاءکے کہنے پر کھیلا۔
ء 1994کے آخر میں انہوں نے انٹیلی اجنسی (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان نامی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور اسی انہوں نے سیاست میں باقاعدہ شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی۔
25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف قائم کر کے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہ اپنی جدوجہد اور اصول پرستی کی بدولت پاکستانی عوام، خصوصاً نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی سیاسی جماعت کو پاکستان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 32، ایوان بالا میں 7، صوبائی اسمبلی سندھ میں 4، صوبائی سمبلی پنجاب میں 30 اور صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا میں 59 نشستیں حاصل ہیں۔
ء1999 میں جنرل پرویز مشرف  کے نعرے کرپشن  اور سیاسی مافیا کا خاتمےٗ کی وجہ سے مشرف کی فوجی آمریت کی حمایت کی۔ عمران خان کے مطابق مشرف انہیں 2002ء میں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 2002ء کے ریفرنڈم میں عمران خان نے فوجی آمر کے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ تمام بڑی جماعتوں نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔ 2002ء میں عام انتخابات میں وہ میانوالی کی سیٹ سے قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔انہوں نےقومی اسمبلی کی  کشمیر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں میں بھی خدمات سر انجام دیں ہیں۔
2 اکتوبر، 2007 کو جنرل مشرف نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفٰی دیے بغیر صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے خلاف  آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے دیگر 85 اسمبلی ارکان کے ساتھ مل کر عمران خان نے تحریک چلائی۔ 3 نومبر، 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد آپ کو نظربند کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ 14 نومبر کو پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامی حالت کے خلاف طلبہ احتجاج کے دوران عمران خان عوامی حلقوں میں نظر آئے۔ اس ریلی کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان کو زد و کوب کیا۔ اس احتجاج کے بعد ان کو گرفتار کر کے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھجوا دیا گیا جہاں یہ چند دن قید رہے۔ انتظامیہ کے مطابق ان پر "دہشت گردی" قانون کے تحت مقدمہ بنایا جائے گا۔دنیا بھر کی اخبارات نے عمران کی فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کو سراہا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف سے وزارت عظمی کا منصب طلب کر رہے تھے اور جب اُنہیں انکار کر دیا گیا تو وہ پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے۔ 18 نومبر کو عمران خان نے ڈیرہ غازی خان جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔ 22 نومبر کو اچانک رہا کر دیا گیا۔
عمران نے کہا ہے کہ ان کی زندگی اور کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ برطانوی حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم سربراہ الطاف حسین کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا جس سے یہ لوگ شیر ہو کر تشدد کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ عمران خان متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین کے خلاف الزامات تو لگاتے رہے اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ الطاف حسین کے خلاف ثبوت لیکر لندن جائیں گے۔ وہ گئے بھی لیکن اپنے الزامات کو کسی عدالت میں کبھی ثابت نہ کر سکے۔
30 اکتوبر 2011ء کو عمران  خان نے لاہور میں 100،000 سے زائد حامیوں کو خطاب کیا، حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی تبدیلیاں حکمران جماعتوں کے خلاف "سونامی" ہیں۔25 دسمبر 2011 ءکو کراچی میں ہزاروں حامیوں پر مشتمل کامیاب عوامی تقریب کا انعقاد  کیا ۔ اس وقت سے عمران خان حکمران جماعتوں اور پاکستان میں مستقبل کے سیاسی امکانات کا حقیقی خطرہ بن گیا۔. بین الاقوامی ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے مطابق،  پاکستان تحریک انصاف دونوں قومی اور صوبائی سطح پر پاکستان میں مقبول جماعتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ 6 اکتوبر 2012 کو عمران خان ​​نے پاکستان کے جنوبی وزیرستان کے علاقے میں کوٹائی کے گاؤں پر ڈرون حملے کے خلاف مظاہرین کے ایک کاروان میں شامل ہوئے ،23 مارچ 2013 کو،خان نے اپنے انتخابی مہم کے آغاز پرنیا پاکستان  قرارداد متعارف کروائی۔ 29 اپریل کو آبزور جریدے نے عمران خان اور ان کی جماعت کو حکمران مسلم لیگ کے لیے اہم اپوزیشن قرار دیا۔ 2011ء اور 2013 کے درمیان، عمران  خان اور نواز شریف کے مابین تلخ جملوں اور الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ رہا۔  اپریل 2013 سے انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے ایک دوسرے پر تنقید کی۔اس انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو امریکا کی جنگ سے باہرقوں میں امن لے کر آئے گا۔  انہوں نے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور ملک کے دوسرے حصوں میں مختلف عوامی اجلاسوں کو خطاب کیا جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک انصاف یکساںتعلیمی نظام متعارف کروائے گی  جس میں امیر اور غریب بچوں کو مساوات ملے گی۔ انتخابات سے صرف چار دن قبل 7 مئی، 2013ء کو ایک فورک لفٹ سے گرنے کے بعد عمران خان کو لاہور میں شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا۔ طبی معائنے کے بعد بتایا گیا کہ عمران خان بخیریت ہیں کوئی تشویش ناک بات نہیں۔ اس سانحے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے منسوخ کر دیے گئے۔عمران خان نے لاہور کے ہسپتال میں لیٹ کر ویڈیو لنک کے ذریعے نے اسلام آباد میں حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر کے مہم کا اختتام کیا۔
 عام انتخابات2018  میں ان کی جماعت پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی۔

No comments:

Post a Comment